دھوکا

حسینہ معین

قدسیہ باجی کی منگنی تھی اس لیے سارا گھر صبح ہی سے وہاں روانہ ہو گیا۔ ملکہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہ تھی اس لیے میں اور ملکہ گھر پر ہی رک گئے۔ ملکہ تو لیٹ کر’’ غزالہ‘‘ کا مطالعہ فرمانے لگیں، میں نے سوچا کوئی مضمون لکھ دوں مگر مضمون کا پلاٹ سمجھ میں آنے کے بجائے خالہ جان کے یہاں کی تقریب یاد آنے لگی۔ کتنا اودھم مچ رہا ہوگا۔ قدسیہ باجی کتنی پیاری لگیں گی۔۔۔یہ۔۔۔ اور۔۔۔ وہ دفعتاً غفور نے آ کر کہا:’’ چھوٹی بی بی ایک بڈھا آیا ہے، کہہ رہا ہے نوکر رکھ لو ، بڑی دور سے صاحب کا نام سن کر آ رہا ہوں۔‘‘
’’ اچھا؟‘‘ ملکہ نے کتاب رکھ دی۔
’’بالکل بڈھا ہے کمر جھکی ہوئی ہے؟‘‘
’’بلا لوں اسے؟‘‘ملکہ نے مجھ سے مشورہ لیا۔
’’بلا لو!‘‘ میں نے بے تکلفی سے کہا۔
غفور اسے لے کر آیا تو معلوم ہوا غدر کا مارا شہزادہ چلا آ رہا ہے۔ مجھے ہنسی آ رہی تھی اس لیے میں تو کھڑکی پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ ملکہ اسے بولیں:
’’ بڑے میاں کیا کیا کام کر لیتے ہیں آپ؟‘‘’’سب کام کرتا ہوں، روٹی پکاؤں ہوں پلاؤ، جردہ( زردہ)، کورمہ( قورمہ) سب پکات ہوں۔‘‘ ان کی بطخ جیسی آواز سن کر تو ہنسی ضبط کرنا انتہائی مشکل تھا۔
’’ کہیں کام کر چکے ہیں؟‘‘ ملکہ نے پوچھا۔
’’بہوت جنگہ‘‘ انھوں نے بے نیازی سے فرمایا:’’ ایسا مزدار کھانا پکات ہوں کہ انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ!‘‘ انھوں نے قصیدہ پڑھا۔
’’ واقعی؟‘‘ میں نے بھی دلچسپی لی۔
’’ تو کیا جھونٹ کہوں ہوں؟‘‘ بڑے میاں کو برا لگ گیا۔
’’ نہیں نہیں یہ بات نہیں آپ تو بڑے ہوشیار ہیں۔‘‘ملکہ نے مسکہ لگایا۔
’’ تنخواہ کیا لیجیے گا؟‘‘ غفور نے کاروباری بات کی۔
’’ میرا تو حساب ہووت ہے کہ ایک دن دن مپھت کام کرت ہوں پھر تنخواہ بندھاوت ہوں۔‘‘
’’ اچھا تو آج کام کیجیے، کھانا وغیرہ پکائیے!‘‘ ملکہ بولیں اور بڑے میاں غفور کے ساتھ باورچی خانے میں چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد میں یوں ہی ٹہلتی ہوئی باورچی خانے میں گئی۔ دروازے کے پاس کھڑے ہو کر دیکھا تو غفور غائب تھا اور بڑے میاں پلیٹ میں تلی ہوئی مچھلی کے قتلے لیے ہوئے فٹا فٹ اتار رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی حواس رخصت ہو گئے، پلیٹ ہاتھ سے چھٹ کر گری اور کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ پلیٹ ٹوٹنے کی آوازسن کر غفور بھاگا ہوا آیا اور بری طرح چیخا:’’ ارے بابا پلیٹ توڑ دی!‘‘
بڑے میاں چوہے کی طرح سکڑے چپ چاپ کھڑے رہے۔ میں بولی:’’ کوئی بات نہیں بیچارے ضعیف ہیں نا۔‘‘ بڑے میاں نے نہایت بیچارگی سے سر ہلایا اور میں کمرے میں بھاگ آئی۔ ہنسی کے مارے برا حال تھا۔دوپہر کے کھانے پر ملکہ کے لیے تو پرہیزی کھانا سوپ اور کھچڑی موجود تھی، میں نے اپنے لیے جو پلیٹ میں سالن نکالا تو عجب رنگ کا تھا۔’’ کیا ہے یہ غفور؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بابا نے پکایا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ اچھا!‘‘ کہہ کر جو ایک نوالہ منہ میں رکھا تو آسمان،زمین سب ڈانس کرتے نظر آئے۔’’ اللہ توبہ پانی!‘‘ میں زور سے چلائی ، ملکہ نے جلدی سے گلاس بڑھا دیا مگر ایک گھونٹ پانی نے اور پیٹ میں آگ لگا دی۔ دوسرا گھونٹ پیا تو اچھو ہو گیا۔ ملکہ کو ایسے نازک وقت بھی مذاق سوجھ رہا تھا۔ ہنس ہنس کر پوچھ رہی تھیں:’’ کیا ہوا۔ ارے بھئی ہوا کیا آخر؟‘‘ میں نے جلدی سے فیرنی کی پلیٹ اٹھا کر کھانا شروع کی تب جا کر کچھ سکون ہوا۔ بابا سے پوچھا کہ اس میں کتنے من مرچیں ڈالی تھیں تو انھوں نے نہایت مختصر جواب دیا:’’ یہ ہمرے وطن کا کھانا ہے۔‘‘
مجبور ہو کر مچھلی کے قتلوں پر اکتفا کرنا پڑا ، ملکہ نے بھی ہلکے سے چکھا تو ان کو اور بھی مزہ آیا، ناچ گئیں۔ میں نے بھی بڑے مزے سے پوچھا:’’ کیا ہوا آخر ہوا کیا؟‘‘ اور ہم دونوں ہنس پڑے۔
کھانے کے بعد ملکہ تو پڑ کر سو گئیں میں بھی سونے کے لیے لیٹی۔ ابھی آنکھ لگنے بھی نہ پائی تھی کہ ایک عجیب بے سری تان سے میں چونک کر اٹھ بیٹھی۔ اس وقت غفور بھاگتا ہوا آیا۔’’اللہ بی بی چل کر دیکھیے بڑے میاں گانا گا رہے ہیں۔‘‘
ملکہ بھی اٹھ بیٹھیں۔ ہم دونوں باہر نکلے تو بڑے میاں برآمدے میں ستون سے لگے آنکھیں بند کیے بیٹھے جھوم رہے تھے۔ ایک ہاتھ سے چمٹا بج رہا تھا اور گلے سے وہ نغمہ بلند ہو رہا تھا کہ اگر تان سین مرحوم بھی سن پاتا تو خود کشی کر لیتا۔ ہم لوگ بے ساختہ ہنس رہے تھے مگر بڑے میاں پر اس ہنسی مذاق کا رتی بھر اثر نہیں تھا۔ غفور سے ضبط نہ ہوا اس نے بڑے میاں کو جھنجوڑ دیا۔ بس پھر کیا تھا، اچھل پڑے۔ چلا کر بولے:
’’ پتھر کا کلیجہ پھٹ جات ہے میرا گانا سن کر، تم مذاق کرت ہو۔‘‘ غفور غریب تو سہم کر بھاگ کھڑا ہوا اور ہم لوگ بھی بے تحاشا ہنستے ہوئے کمرے میں چلے آئے۔ بڑے میاں چپ ہو گئے تھے اس لیے ہم بھی پڑ کر سو گئے۔
جب آنکھ کھلی تو ساڑھے چار کا وقت ہو چکا تھا۔ ملکہ ناشتے پر بلا رہی تھیں۔ منہ ہاتھ دھو کر جب میں پہنچی تو ملکہ بولیں:’’ دیکھو یہ بابا نے سموسے بنائے ہیں۔ بڑے مزیدار ہیں۔‘‘
میں نے بھی چکھا تو بڑے مزیدار لگے۔ تین چار کھا گئے۔ جب برتن اٹھانے بڑے میاں آئے تو میں نے پوچھا:’’ بابا یہ کیسے بنائے ہیں؟‘‘
’’ یہ جناور کے ہیں۔‘‘ انھوں نے بڑی بے پروائی سے برتن اٹھا کر ڈائننگ کارٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’ جناور؟‘‘ ملکہ مجسم سوال بن گئیں۔
’’ جناور جھینگر۔۔۔‘‘ وہ بولے۔
’’ جھینگر یعنی کیڑے وہی جو پھدکتے ہیں؟‘‘ میرا برا حال ہو گیا۔’’ وہی، یہ ہمرے وطن کا کھانا ہے۔‘‘ بڑے میاں اطمینان سے کارٹ لے کر کمرے سے نکل گئے اور ہم دونوں بت بنے بیٹھے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔ چند سیکنڈ بعد بڑے میاں ایک پلیٹ لے کر پھر آئے اور بڑے مزے سے بولے:’’ جھینگر کو تو ہم بھون کر کھاوت ہیں۔‘‘
پلیٹ میں دس بارہ جھینگر مرے پڑے تھے اور بہت سے پر پڑے تھے۔ میں تو اچھل کر بھاگ کھڑی ہوئی، ملکہ جو گھبراہٹ میں پیچھے کھسکیں تو کرسی لڑھک گئی اور وہ ایک قلا بازی کھا کر پھر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔ کلیاں کرتے کرتے ہم دونوں کا برا حال ہو گیا۔ غفور بد تمیز ہنسے جا رہا تھا اور بابا صحن میں کھڑے ایسے حیرت سے ہمیں تک رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں:’’ عجب جناور ہو تم لوگ بھی۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر بعد بابا بڑی مسکین شکل بنائے ہمارے پاس آئے۔’’ بی بی ہم چھٹی مانگتا۔‘‘
’’ جائیے جائیے چھٹی ہے۔‘‘ ملکہ نے ایسے لہجے میں کہا کہ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔
’’ میں رات کو آ جاؤں گا۔‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولے:’’ اب جتنی عمر ہے اس گھر میں بتا دوں گا۔‘‘ بڑے میاں ہمارے سروں پر دست شفقت پھیرتے ہوئے چلے گئے اور میں نے جل کر کہا:
’’ خدا تم سے سمجھے۔ امی تو تمھیں ایک منٹ میں کان پکڑ کر نکال دیں گی۔‘‘
مغرب کے وقت سب لوگ آ گئے ۔ قدسیہ باجی کی منگنی کے لڈو آئے تھے، اس پر چھین جھپٹ ہوتی رہی۔ کھانے کے بعد ہم دونوں نے امی کو سارے دن کا قصہ سنایا۔ سب کا ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب جب ہم سب سونے جا رہے تھے تو دروازے پر دستک ہوئی۔’’ وہ بڑے میاں ہوں گے۔‘‘ میں نے سہم کر کہا۔
غفور باہر گیا تو آن کر ابا جان سے بولا:’’ بابو جی کوئی صاحب آئے ہیں ان کے ساتھ سامان بھی ہے۔‘‘
’’ ہائیں صاحب۔۔۔ سامان۔۔۔‘‘ آپی بوکھلا گئیں۔
ملکہ بڑے درد بھرے لہجے سے بولیں:’’ ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا۔‘‘
اور میں نے جلدی سے شعر پورا کر دیا:’’ دوسری پڑ گئی اللہ نئی کیا؟‘‘
باہر سے ابا جان کی آواز آئی:’’ ارے لڑکیو بھاگ کر آؤ دیکھو یہ جمی آیا ہے۔‘‘
’’ جمی بھیا؟‘‘ میں چیخی اور ہم سب چیختے چلاتے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگے۔ وہاں جمی بھیا کھڑے مسکرا رہے تھے۔ ہم سب چاروں طرف سے چمٹ گئے۔ ابھی بھی آئیں، بلائیں لی گئیں، ڈھیرے سارے پیار ہوئے۔ ملکہ نے بڑے پیارے سے پوچھا:’’ اللہ جمی بھیا آپ کیسے آئے؟‘‘
’’لاہور سے ٹکٹ کٹایا، ریل گاڑی نے یہاں پہنچا دیا۔‘‘ جمی بھیا سنجیدگی سے بولے۔’’ اچھا تو کیوں آئے؟‘‘ آپی بولیں۔
’’بات ہے یہ جناب۔۔۔‘‘ انھوں نے ٹائی کی ناٹ کھولتے ہوئے کہا:’’ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ یہی حال مجھ غریب کا ہوا۔‘‘
’’ اچھا تو گیدڑ صاحب۔‘‘ میں نے انھیں دھکیل کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا:’’ یہ بتائیے آپ ہم لوگوں کے لیے کیا لائے؟‘‘
’’چمگادڑ کے لیے کیا لانا، دھوپ کا چشمہ؟‘‘ بھیا ہنسے۔ میں نے لپک کر پھلوں کی ٹوکری پر قبضہ جمایا اور ایک ایک سیب سب کی طرف اچھال دیا۔ پندرہ منٹ میں ٹوکری خالی تھی اور قالیں پر ڈھیر سارا کوڑا جمع ہو چکا تھا۔
’’ امی۔‘‘ بھیا نے امی کو مخاطب کیا:’’ میں سمجھا تھا یہ لوگ کراچی جا کر انسان بن گئی ہوں گی مگر۔۔۔ خیر یہاں گاندھی گارڈن تو قریب ہی ہے نا کچھ پنجرے ریزور کروانے ہیں۔‘‘
’’ ہاں ہاں۔‘‘ میں نے ان کی جیب سے چاکلیٹ نکال کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا:’’ فکر نہ کیجیے ایک ریزور ہو چکا ہے۔ کل چلیے گا۔ داخلہ مل جائے گا۔‘‘
بھیا میری طرف لپکے اور میں بھاگ کر ڈائننگ روم میں گھس گئی۔ بھیا چلا کر بولے:’’ خیر ابھی تم کو بتاؤں گا۔ ذرا کپڑے بدل آؤں۔‘‘ اور بھیا اپنا اٹیچی لے کر باتھ روم کو چل دیے۔
میں جلدی سے پھر آ گئی۔ بھیا جو کتابیں لائے اس پر سب قبضہ جمانے لگے۔ کوئی پانچ منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی۔’’ ارے اب کون ہے؟‘‘ ملکہ چلائی۔
ابا جان نے دروازہ کھول کر دیکھا تو بولے:’’ ایک بڑے میاں ہیں۔‘‘
’’ ارے بابا۔‘‘ میں چیخی۔ بابا اندر آ کر کھڑے ہوئے۔ امی ان سے کہنے لگیں:’’ جی دراصل یہ بچیوں نے غلطی سے آپ کو رکھ لیا ہم کو ابھی نوکر کی ضرورت نہیں۔‘‘
انھوں نے سلام کر کے کہا:’’ حضور بڑا غریب آدمی ہوں۔‘‘ دفعتاً میری نگاہ ان کی کلائی پر پڑی۔ سلام کرنے سے ان کی آستین ذرا ہٹ گئی تھی اور کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی جھانک رہی تھی۔
’’ جمی بھیا کی گھڑی۔‘‘ میں بد حواسی سے باتھ روم کو بھاگی، دروازے پر ہاتھ مارا تو کھل گیا۔ باتھ روم خالی پڑا تھا۔ باہر کھلنے والی کھڑکی کھلی پڑی تھی۔ میں پھر دیوانوں کی طرح بھاگتی ہوئی بابا کی طرف آئی۔ بابا جھک کر پیچھے ہٹے مگر میں نے ایک ہاتھ جو مارا تو بابا کی داڑھی، سر ، مونچھیں دونوں میرے ہاتھ میں تھیں۔’’ جمی ایں؟‘‘ امی اور ابا جان ایک ساتھ چیخے۔ آپی بھی بد حواس ہو کر آئیں۔ انھوں نے پگڑی پر ایک ہاتھ مارا تو دو تھان کی پگڑی دور جاگری۔
’’ ارے یہ کیا بکوا س ہے جمی تم سارا دن۔۔۔‘‘آپا جان کہتی چلی گئیں:’’ جمی میں۔۔۔ ‘‘جمی بھیا نے بے تحاشا ہنستے ہوئے اپنا لبادہ اتار پھینکا، وہ اپنا مخصوص سیلپنگ ڈریس پہنے ہوئے تھے۔ سارا گھر بے تحاشا ہنس رہا تھااور میں دم بخود کھڑی سوچ رہی تھی وہ بابا۔۔۔ سالن۔۔۔ گانا۔۔۔ جھینگر۔۔۔۔ جمی بھیا۔ دفعتاً جمی بھیا نے آگے بڑھ کر کہا:’’سرکار طبیعت کیسی ہے؟‘‘ ایک قہقہہ پڑا اور میں نے جل کرکہا:’’دھوکے باز کہیں کے۔‘‘

٭٭٭