Previous slide
Next slide

کہانیاں

مائل خیر آبادی
میاں بغدادی
تھوڑا تھوڑا خرچ کریں ہم
دُم گھنٹی مینڈھا
چوہوں کا جلسہ
بلو کا بھالو

جمیل جالبی ایوارڈ جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان

Voice of Children

بچوں کی آواز کا فلسطین نمبر

palestine number

ادبیات اطفال کا فلسطین نمبر

Jamil jalbi award

جمیل جالبی ایوارڈ برائے بچوں کا ادب

میاں بلاقی کے کارنامے

جاوید بسام کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں کہانیاں لکھنے کے بجائے کہانیاں پڑھتا تھا۔ جاوید بسام کی کہانیوں کی خاص بات یہ تھی کہ اِن کہانیوں کو خوب چٹخارے لے کر پڑھا کرتا تھا۔ اُن کی کہانیوں کا انداز ہی اتنا انوکھا اور دلکش تھا کہ وہ کسی بھی بچے کو مسحور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کی کہانیاں نہ صرف ساتھی میں بلکہ نونہال، اقرا، الف نگر میں بھی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ خصوصاً ان کی میاں بلاقی سیریز تو کسی انگریزی سیریز کا حصہ لگتی ہیں، لیکن یہ کہانیاں اُنھوں نے طبع زاد لکھی ہیں۔
جاوید بسام نے اردو ادب کے علاوہ انگریزی ادب کا بھی خوب مطالعہ کیا ہے۔ اُنھوں نے بڑوں کے لیے بھی کئی افسانے تحریر کیے۔ احمد ندیم قاسمی، بانو قدسیہ جیسے عظیم افسانہ نگاروں نے جاوید بسام کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی افسانہ نگاری میں منظر نگاری کی جھلک ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں بخوبی نظر آتی ہے۔ ان کی کہانیوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی کہانی کو انتہائی آسان طریقے سے یوں شروع کرتے ہیں کہ قاری شروع ہی سے کہانی کے طلسم میں گھر جاتا ہے۔
کہانی میں دھیرے دھیرے دلچسپی کا عنصر بڑھتا رہتا ہے۔ اگر کہانی جاسوسی بھی ہو تو اس میں زیادہ پیچیدگیاں پید انہیں کرتے۔ مکالموں سے زیادہ منظر نگاری کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ماہنامہ ساتھی میں ان کی بھیجی گئی تحریروں کو نہ صرف قارئین کی طرف سے پذیرائی ملتی ہے بلکہ

میاں بلاقی کے کارنامے

اردو ذخیرۂ الفاظ

اچھا لکھنے والے تو بہت ہیں، مگر وہ سارا اچھا، کس عمر کے بچوں کے لیے ہے، اس آسان سوال کا جواب عموماً مشکل ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی شائع ہونے والی بچوں کے لیے کہانی؛ کس عمر سے کس عمر تک کے بچوں کے لیے ہے۔ یہ کسی بھی کہانی سے متعلق رائے دینے سے پہلے جاننا ضروری ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر الفاظ ہی ہیں جو کہانی ’’بناتے‘‘ ہیں، الفاظ سے دل چسپ، سادہ پرتجسس، معنی خیز، مزاحیہ، طنزیہ یا معلوماتی جملے ترتیب پاتے ہیں۔ تب ہی کہانی مکمل ہوتی ہے۔ اب کس عمر کے بچوں کے لیے لکھنا ہے، اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اردو والوں کے لیے یہ رہا ہے کہ، بچوں کی عمروں کے حساب سے، ذخیرہ الفاظ کی فہرستیں کبھی مرتب ہی نہیں کی گئیں۔ جب ایک اوزار موجود ہی نہیں تو کاری گر، اپنے پاس موجود ذہانت، تجربے اور دیگر اوزاروں ہی سے کام چلانے کی کوشش کرے گا۔ کبھی تو وہ بہت اچھا کام کر دے گا کبھی مسئلے کو درست کرنے کی بجائے بگاڑ ہی دے گا۔
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر، احمد حاطب صدیقی، محمد اسلام نشتر کی مرتب کردہ اور ڈاکٹر محمد ریاض عادل کی نظر ثانی شدہ کتاب اردو ذخیرۂ الفاظ جماعت اول تا پنجم (یعنی 5 تا 10 سال تک کی عمر) 2018ء میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں جماعت اول تا پنجم تک کی نصابی کتابوں سے اخذ شدہ الگ الگ الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ کتاب بلاشبہ ہر مصنف اور مدیر کی ضرورت ہے، جو بھی بچوں کے لیے لکھ رہا ہو یا بچوں کے رسالے کتابوں یا اخبار کے صفحات کی ادارت کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

Zakhera Alfaz

آئیے سائنس دان بنیں

اور یہ بات مسلم ہے کہ کسی بات کی تفہیم کے لیے اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے جان لینے سے کہیں بہتر مشاہدہ کرنا اور مشاہدے سے کہیں بہتر تجربہ کر ناہے۔
مثال کے طور پر ایک بچہ اول اول یہ پڑھتا ہے کہ آگ ایک قدرتی مظہر ہے جو نہ ٹھوس ہے اور نہ مائع۔ وہ ایک ایسی شے ہے جو ہر شے کو جلا کر ختم کر دیتی ہے۔بچے کے اِس جان لینے کوعلم الیقین کہتے ہیں۔ یہ جاننے کا سب سے کمتر درجہ ہے۔
اس کے بعد ایک دن بچہ آگ کو دیکھ لیتا ہے۔سرخ سرخ نارنجی شعلے، روشنی اگلتے شعلے اسے بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو چیز بھی آگ میں ڈالی جارہی ہے۔ وہ اپنی ماہیت بدل لیتی ہے۔اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ کر، اُس کے رنگوں کو اور اس میں جلتی چیزوں کو دیکھ کر اسے جو علم ہوا، اسے عین الیقین کہتے ہیں، جو علم الیقین سے یقینا بہت بڑھ کر ہے۔
مگر ابھی دور دورسے یہ دیکھنے والا آگ کی حقیقت سے واقف نہیں ہے۔
جب کسی دن وہ بچہ آگ کے قریب جائے گا۔ اُس کی حدت کو محسوس کرے گا۔ مختلف تجربے کر کے درجہ حرارت کو ماپے گا تو وہ آگ سے معلق بہت ساری باتیں جان لے گا۔ مثلاً وہ جان لے گا کہ آگ کے کتنے قریب آنے پر اس کی حدت فرحت بخش ہوتی ہے اور کتنے قریب ہونے پر یہ سخت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔
آگ پر مختلف تجربات کر کے،گاہے اپنا ہاتھ جلا کر اسے آگ کے متعلق جو علم عطا ہوتا ہے وہ حق الیقین کہلاتا ہے جو علم کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔جی ہاں! اپنے علم کو تجربات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ علم درست ہے یا نہیں۔
یہ مسلسل سیکڑوں برسوں کے تجربات ہی ہیں، جن کی بدولت پتھر کے دور کا انسان اپنے ہزاروں برس کے سفر کے بعد آج اُس مقام پر ہے کہ وہ کائنات کی مادی قوتوں پر قابو پا کر محیرالعقول کرشمے دکھا رہا ہے۔
انسان کی یہ مادی ترقیاں تجرباتی سائنس کی ہی بدولت ہیں اوردنیا معترف ہے کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمان سائنس دانوں نے ہی رکھی تھی، المیہ مگر یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے اپنی یہ میراث غیروں کے حوالے کر دی ہے۔ آج کل ہماری درس گاہوں میں علم کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا تو بہت دور کی بات ہے، علم سمجھایا بھی نہیں جا رہا، بلکہ محض رٹا دینے کو علم کا حصول سمجھ لیا گیا ہے۔
صرف سائنس کے مضمون کو دیکھ لیجیے تو ہمارے اساتذہ طلبہ کو بس سائنسی قوانین و مساواتیں رٹا دیتے ہیں۔ ان کا پورا زور کتابوں میں درج معلومات کو حرف بہ حرف لیکچر میں دہرانے پر ہوتا ہے ، سو بچے بھی اساتذہ اور والدین کے ڈر سے یا امتحان میں کامیاب ہونے کے لالچ میں اِن معلومات کو رٹ لیتے ہیں تا کہ پرچے حل کر سکیں اور نتیجتاً ڈگری حاصل کر کے کوئی اچھی نوکری پا سکیں۔
ایسی افسوس ناک صورت حال میں سائنس کی تعلیم محض تعلیم برائے ڈگری رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے ہزاروں طلبہ میں خال خال ہی کوئی ایک طالب علم ایسا ہوتا ہے جو سوچنے والا دماغ رکھتا ہے۔ اپنے علم پر تجربات کا شوق رکھتا ہے اور ہزاروں سال سے بہتے آ رہے علم کے اِس دریا میں کچھ اپنا حصہ ملانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

اعظم طارق کوہستانی

سفید گیند

سید بلال پاشا کی کتاب کا مسودہ ہمارے بالکل سامنے میز پر رکھا ہے۔ کتاب نک سک سے تیار، ہر طرح سے سجی سنوری پریس جانے سے پہلے، بالکل آخری مرحلے میں ہمارے پاس آئی ہے کہ ہم اس پر مدیر کی حیثیت سے کچھ لکھ دیں۔
اور ہم کافی دیر سے بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں؟
پاشا پر لکھیں…یا اُس کی اِن ضیا پاشیوں پر جو اس نے بڑی مغز پاشی کے بعد اِس کتاب میں جمع کردی ہیں۔
یہ ساری کی ساری ’’ضیا پاشیاں‘‘نہیں ہیں… اُن میں سے کچھ’’ نمک پاشیاں‘‘ ہیں تو کچھ’’برق پاشیاں‘‘ بھی!
یعنی صرف میٹھی میٹھی سنجیدہ اصلاحی کہانیاں ہی آپ کو اس کتاب میں نہیں ملیں گی، بلکہ جہاں آپ کا دل زیادہ میٹھے سے بھاری ہوا، کوئی نہ کوئی طنز و مزاح سے بھر پور نمکین تحریر، آپ کی زباں پر نمک گھول دے گی۔
بلال پاشا صاحبِ کتاب ہونے کے اعتبار سے ابھی کافی کم عمر ہے، یعنی محض 24سال عمر۔ویسے تو خیر کوئی لکھاری کسی بھی عمر میں صاحبِ کتاب ہوسکتا ہے، مگر ہم دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ 40سال سے پہلے لکھاری کو اپنی کتاب شائع کرنے کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ اوائل عمری میں لکھی گئی کتاب، جب آدمی پختہ عمر میں خود پڑھتا ہے تو اکثر ا پنے لکھے ہوئے کو خود ہی مسترد کردیتا ہے۔
سید بلال پاشا کے معاملے میں مگر ہم نے اپنی ہی رائے کو مسترد کردیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ کتاب ’’ سفید گیند‘‘ کوئی فلسفے کی کتاب تو ہے نہیں، بلکہ یہ تو کہانیوں کا مجموعہ ہے، جو بچوں اور ٹین ایجرز کے لیے لکھی گئی ہیں۔ وہ کہانیاں جو کتاب سے پہلے ’’بچوں کا اسلام‘‘ جیسے مقبول ہفت روزے میں چھپ کر مقبولِ خاص و عام ہوچکی ہیں… اور ظاہر ہے کہ اللہ رکھے، بلال جب40کے سِن کو پہنچے گا، تب اگر اپنی اِن کہانیوں کو فنی اعتبار سے کم تر جانے گا بھی، تب بھی اِس کتاب کے قاری تو وہی بچے اور نوجوان ہوں گے ،سو اس وقت کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے تب بھی یہ کتاب بے حد دلچسپی رکھتی ہوگی۔
اس کتاب کے ہر صفحے پر بلکہ سطر سطر میں آپ کو ایک کہانی ملے گی… حتیٰ کہ جو مضامین ہیں، اُن میں بھی آپ کہانی پن کا سا لطف پائیں گے… کیوں کہ جیسے شعریت کے لیے شعر کا ہونا لازم نہیں ہے، اسی طرح کہانی پن کے لیے بھی کہانی کی صنف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلال میاں بھی لگتا ہے کہ کہانی سے اتنے متاثر ہیں کہ مضمون لکھتے ہیں تو اُس میں بھی ’’اپنی‘‘ کوئی نہ کوئی کہانی ڈال دیتے ہیں۔
پچھلے دو تین برسوں میں سید بلال پاشا کی ایک شناخت جاسوسی ادب کے لکھاری کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ اُن سے سرزد ہو جانے والی چندجاسوسی کہانیوں کی بدولت ہوا ،جو حلقۂ قارئین میں بہت مقبول ہوئیں۔ جاسوس سیریز کی اِن کہانیوں کے مستقل کردار بھی ہیں، جو آہستہ آہستہ ابھر کر بلکہ کہنا چاہیے کہ نکھر کر ہر اگلی کہانی میں سامنے آرہے ہیں۔ شاید یہ کردار ابھی تخلیق کے مراحل میں ہیں۔
مصنف کو مشورہ ہے کہ انہیںذہن میں ابھی مزید اِن کرداروں کو پکانا چاہیے اور ایک بہترین سانچے میں ڈھال کر اگلی کہانیوں میں پیش کرنا چاہیے، ایسے سانچے میں جو انسپکٹر جمشید سیریز کے کرداروں کی طرح ہر لحاظ سے مکمل ہو۔

سید بلال پاشا

ماہنامہ کھلونا، انتخاب

رسالہ "کھلونا" بھارت سے شائع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز اپریل، 1948ء میں ہوا۔ اپنی معیاری اور دلچسپ پیش کش سے اس کو جو شہرت اور مقبولیت ملی، وہ (اس دور کے) کسی اور رسالے کو نصیب نہیں ہوئی۔

اس رسالے کو جن مشاہیر قلم کاروں کا قلمی تعاون حاصل تھا ان میں کرشن چندر، بلونت سنگھ، عادل رشید، سلام مچھلی شہری، میرزا ادیب، عصمت چغتائی، رام لعل، خواجہ احمد عباس، واجدہ تبسم، اے آر خاتون، رضیہ سجاد ظہیر، جیلانی بانو، خدیجہ مستور، شمیم کرہانی، ستیہ پال آنند، #راجہ_مہدی_علی_خاں، رئیس احمد جعفری، جمیلہ بانو، روشن جہاں، کنہیا لال کپور، صالحہ عابد حسین، خواجہ احمد عباس، فکر تونسوی، جگن ناتھ آزاد، رئیس امروہوی، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی، اور شفیع الدین نیر جیسی شخصیات تھیں۔

اسی رسالہ میں سراج انور کا خوفناک جزیرہ، کالی دنیا، نیلی دنیا، ظفر پیامی کا ستاروں کے قیدی اور کرشن چندر کی چڑیوں کی الف لیلیٰ جیسی شاہکار تخلیقات شائع ہوئیں۔ کھلونا کا سالنامہ بچوں میں بہت مقبول تھا۔

کھلونا کا عام شمارہ 60 تا 70 صفحات پر اور سالنامہ اور خصوصی نمبر 150 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ رسالہ "کھلونا" کی عمومی ترتیب یوں تھی۔ رنگین سرورق جس پر بچوں کی مناسبت سے کوئی تصویر ہوتی، پھر اداریہ کے تحت اپنی باتیں، عنوان سے ایک مختصر مضمون ہوتا، پھر کوئی ایڈوینچرس اور معلوماتی مضمون ہوتا، جیسے جاپان کے برف کے بھوت، اس کے بعد انعامی تصویریں، انعامی کارٹون نمبر، تصویری پہیلی، کہانیاں، فکشن سریز، نظمیں، اشتہارات وغیرہ۔ یہ شاید واحد رسالہ تھا جس میں بچوں کی پسند اور ناپسند کے بارے میں پوچھا جاتا تھا۔ اپنے جاذب نظر گیٹ اپ، السٹریشن اور دیدہ زیب طباعت کی وجہ سے اس رسالے نے بہت جلد مقبولیت اور شہرت کی بلندیاں طے کر لیں۔ بچوں کے رسائل کے ضمن میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ رسالہ 1987ء میں بند ہوگیا۔

2019ء میں محمد اسد اللہ خان نے کھلونا کا ایک انتخاب مرتب کیا تھا۔

ماہنامہ کھلونا: ایک انتخاب
(کہانیاں، مضامین، ڈرامے اور نظموں کا انتخاب)

یہ کھلونا کے 17 مختلف شماروں میں سے کل 22 کہانیوں، 16 نظموں، 3 مضامین اور 12 ڈراموں کا انتخاب ہے۔

ان میں سے 27 تحریریں محض 4 مختلف شماروں سے لی گئی ہیں۔ اور بقیہ 26 تحریریں میں سے 15 تحریریں 13 مختلف شماروں سے لی گئیں ہیں۔ جب کہ 11 تحریروں کے ساتھ کوئی حوالہ نہیں دیا گیا کہ کھلونا کے کس شمارے سے لی گئیں ہیں۔

2019ء میں اس کی پہلی بار اشاعت ہوئی، یہ انتخاب 320 صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کی تعداد اشاعت محض 500 درج ہے۔

اسے بھارت سے قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی نے شائع کیا۔

فہرست
کہانیاں

ہرے رنگ کا جادو، کرشن چندر
بشیرے کی اماں، عصمت چغتائی
روئی کا پودا، عصمت چغتائی
موٹوؤں کا گھر، رام لعل
جھوٹا سچ، جیلانی بانو
تعارف ، واجدہ تبسم
بند دروازے، واجدہ تبسم
بہادری کا تمغا، ہاجرہ نازلی
سب سے اچھا تحفہ، رضیہ سجاد ظہیر
ضد کا انجام، خدیجہ مستور
سزا، بانو سرتاج
دوسری سزا، ابرار محسن
اپنے پرائے، رام پال
ذہانت، سرجیت
کبوتر والا، سراج انور
حوصلے کا صلہ، اشفاق احمد
تاریخ پارے، مشاق اعظمی
تین کہانیاں، ایم اسلم

طنز و مزاح

ہاتھی کا پیغام، کنیہا لال کپور
چوتھے میں، احمد جمال پاشا
ایک طالب علم کی ڈائری، غلام احمد فرقت کاکوروی
شرارتیں، امانت اللّٰہ خاں نظمی

ڈرامے

انوکھی آزمائش، اقبال احمد
بنگال کا جادو، جگن ناتھ آزاد
سارس کی کہانی، کوثر چاند پوری
سونے کی گیند، میرزا ادیب
ملاقات، اظہر افسر
ہنستا ہوا حبشی، اظہر افسر
بغداد کا نائی، ابرار محسن
گویّا جاسوس، ذکی انور
ایک لوہار کی، مہر رحمان
بچہ کیوں فیل ہوا؟ سید نور الحسنین
چالاک بڑھیا، شہاب صدیقی
عدالت، عبدالکمال خاں

مضامین
چاچا نہرو کیا تھے، خواجہ احمد عباس
ایک مشہور سائنس دان، اندر جیت لال
پینسل کی کہانی، کے پی سکسینہ

نظمیں

قصیدہ چڑیا کا حفیظ جالندھری
سن لو ایک کہانی، جگن ناتھ آزاد
آہا آیا سال نیا، راجہ مہدی علی خاں
بچوں کا گیت، بسمل سعیدی
گھوڑا، ناوک حمزہ پوری
نیا زمانہ کس کا ہے، سلام مچھلی شہری
وعدہ، ماچش لکنھوی
مٹھو ہاں ہمارے، مخمور سعیدی
چڑیا گھر کی سیر، محمد شفیع الدین نیئر
پیار کی جنت، قتیل شفائی
نیند کی رانی، کرشن
اوٹ پٹانگ، گلزار
لڑکپن کی یاد، شمیم کرہانی
قومی تہوار، مہدی پرتاب گڑھی
لوری، سیدہ عنوان
گائے، علیم اختر مظفر پوری

شناس نامہ، مصنف کا تعارف

بے شک یہ بہت بڑا کام ہے، اور اس پر محنت کی گئی ہے۔ یہ بچوں کے رسائل میں دفن خزانوں کی طرف پہلا قدم ہے۔ لیکن انتخاب میں مشاہیر کو زیادہ جگہ دی گئی، اور چند شماروں سے یہ انتخاب کیا گیا ہے جو بہ ہر حال کھلونا کا وہ تعارف نہیں کرا سکا، جو کہ کھلونا تھا۔ مشہور ادیبوں کی کہانیوں کے مجموعے، انتخاب اور مشہور کہانیاں بعد میں بھی دیگر رسالوں میں چھپتی رہی ہیں۔ غیر معروف ادیبوں جن کی کہانیاں کھلونا کے شماروں میں دفن ہیں ان کو زندہ کرنے کی ضرورت تھی، جو یہ انتخاب نہیں کر سکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھلونا کے اس انتخاب کی طرز پر مشاہیر اور وہ ادیب جن کی کہانیاں الگ سے شائع ہوئیں ہوں یا دیگر کسی طرح آج بھی دستیاب ہوں، ان سے ہٹ کر دیگر مصنفین کی کہانیوں کو جگہ دی جائے۔

کھلونا کا ایک دوسرا انتخاب، محمد قاسم صدیقی نے کیا ہے جس میں 16 تحریریں شامل ہیں (8 کہانیاں، 8 مضامین)

تعارف میں بتایا گیا ہے کہ اس انتخاب میں شامل کہانیاں کھلونا میں شائع ہونے سے قبل، آل انڈیا ریڈیو کی ایکسٹرنل سروس کے بچوں کے پروگرام میں نشر ہو چکی تھیں۔
یہ انتخاب ، 2008ء میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔

khilona intikhab

میرا نام منگو ہے

یہ منگو کی کہانی ہے، بچپن میں اغوا کیے گئے منگو کو اغوا کار بڑھیا (مائی جیناں) کو ریڑھی میں ڈال کر پورا دن، بھیک مانگنا ہوتی ہے، وہ اسی کو اپنی ماں سمجھتا ہے، ایک واقعے کے بعد وہ بڑھیا فیصلہ کرتی ہے کہ منگو کے ہاتھ پاؤں توڑ کر ایک الگ ملازم رکھا جائے جو منگو کو بھی لے کر ریڑھی میں بھیک مانگے اور بڑھیا کو الگ ملازم دھکیلتا پھرے۔ منگو کو تب علم ہوتا ہے کہ وہ اس کا بیٹا نہیں، یہ سن کر وہ بھاگ نکلتا ہے، اور شہر کے ایک نابینا پیر کے گھر پہنچ جاتا ہے، جہاں سے ناول کی اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔

وہ پیر سچ میں نابینا نہیں، وہ اسکول کے لڑکوں کو جو بہت امیر گھرانوں سے ہوتے ہیں، پاس کرانے کے تعویذ کے لالچ دیتا ہے فرشتے دکھاتا ہے اور فرشتوں کے قہر سے ڈرا کر رکھتا ہے۔ وہ لڑکے گھر سے مال و دولت، زیور لے کر اس پیر کے چیلوں کے ہاتھوں، مال گنواتے ہیں اور جان بھی، پورے 47 لڑکے (ایک انگریزی مضمون میں 74 لکھا گیا ہے جو 47 کو 74 لکھ دیا گیا ہے)

Mera namm mango ha (1)
میاں بلاقی کے کارنامے
اردو ذخیرۂ الفاظ
آئیے سائنس دان بنیں
سفید گیند
ماہنامہ کھلونا، انتخاب
میرا نام منگو ہے