خزانے کی تلاش

مریم سرفراز

خرگوش اور ننھا ریچھ اتفاقاً دوست بن گئے تھے۔ وہ اتفاق بھی حیرت انگیز تھا جب خرگوش نئے اسکول میں داخلے کے بعد پہلے دن اسکول پہنچا تو کسی نے بڑی بے تکلفی سے اسے آواز دی۔
’’بینو…! بینو…!‘‘ خرگوش حیران رہ گیا کیوں کہ اس کے خیال میں یہاں اس کو جاننے والا کوئی نہیں تھا لیکن جلد ہی اس کی حیرت دور ہوگئی۔ وہ ایک ریچھ کا بچہ تھا جس کو اس کے دوست بلارہے تھے۔ چھوٹا بھالو اپنے دوست کی بات سن کر فارغ ہوا تو خرگوش نے اسے مخاطب کرکے کہا۔
’’میرا نام بھی بینو ہے۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ بھالو کی مسکراہٹ بہت دوستانہ تھی۔
’’بینو نام کے جانور تو بہت اچھے ہوتے ہیں، مجھے اپنا نام بینو بہت اچھا لگتا ہے، تمھیں بھی شہد پسند ہے؟‘‘ بھالو نے پوچھا۔
’’ہاں لیکن زیادہ شہد کھانے سے میری طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔‘‘ بینو خرگوش نے جوابی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
’’اچھا! تم اسکول میں نئے آئے ہو؟‘‘ بھالو نے پوچھا۔
’’ہاں آج میرا پہلا دن ہے اور میرا یہاں کوئی دوست نہیں ہے۔‘‘ خرگوش نے معصومیت سے کہا۔
’’ارے میں ہوں نا تمھارا دوست۔‘‘ چھوٹا بھالو اچھل کر خرگوش کے پاس آگیا۔
’’یہاں سارے لوگ بہت اچھے ہیں۔ میڈم بکری پرنسپل ہیں، مس مرغی کلاس ٹیچر ہیں، سر بگلا وین کے انچارج ہیں، تم وین میں آتے جاتے ہو؟‘‘
’’نہیں میں پیدل آئوں گا، میرا گھر قریب ہی ہے۔‘‘
’’اچھا مجھے بھی پیدل چلنا اچھا لگتا ہے ویسے بھی میں وین میں پھنس جاتا ہوں، جھک کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس لیے میں بھی پیدل آتا ہوں۔‘‘ چھوٹے بھالو نے کہا۔
’’اچھا بینو تم پہلی دفعہ اسکول آئے ہو؟‘‘ بھالو نے پوچھا۔
’’نہیں، پہلے میں دوسرے جنگل کے اسکول میں تھا۔ میرے بابا کا ٹرانسفر یہاں ہوگیا تو ہمارا خاندان اس جنگل میں آگیا۔‘‘ خرگوش نے اپنے بستے سے گاجریں نکال کر بینو بھالو کو پیش کیں۔
’’لو بینو بسم اللہ کرو، میری ماما کہتی ہیں گاجر کھانے سے نظر تیز ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا پھر تو میں ضرور کھائوں گا، میری اماں کو ہر وقت میری نظر کی کمزوری کی فکر رہتی ہے، میں موبائل پر جب بھی گیم کھیلتا ہوں میری اماں کہتی ہیں آنکھیں خراب ہوجائیں گی۔‘‘
’’ارے واہ! وہ بالکل ٹھیک کہتی ہیں، تمھیں پتا ہے بینو مجھے موبائل گیمز کی بہت عادت تھی، میں ہر وقت گیم اور ویڈیوز میں لگا رہتا تھا پھر میری آنکھوں میں اتنا درد ہوا، اتنا درد ہوا۔ دو دن تک ڈاکٹر انکل نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر دوا لگائی تو کچھ آرام آیا اب تو میں موبائل گیمز بالکل نہیں کھیلتا۔‘‘ بینو خرگوش نے گاجر چباتے ہوئے کہا۔
’’اوہ…!‘‘ جب ہی تمھاری آنکھیں لال ہوگئی ہیں۔‘‘ بینو بھالو نے سر ہلاتے ہوئے کہا جیسے بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔
’’ہاں…‘‘ خرگوش نے بے چارگی سے سرہلاتے ہوئے کہا۔ گاجریں چٹ پٹ ختم ہوگئیں لیکن بینو خرگوش اور بینو بھالو کی دوستی اتنی پکی ہوگئی کہ مثالی بن گئی۔ چاہے صبح ہو یا شام وہ ہر وقت ساتھ ساتھ پائے جاتے، اُنھوں نے جنگل کا کونا کونا گھوما، چپہ چپہ اپنے پائوں تلے روندا۔
بینو خرگوش نے بھالو کو بتایا : ’’میری ماما کہتی ہیں ہمیں تحقیق کرنی چاہیے۔ تحقیق یعنی ریسرچ کے بغیر ہم دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے، ترقی کرنے کے لیے تحقیق ضروری ہے۔‘‘
یہ اہم بات ان دونوں نے اپنے پلے باندھ لی۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں ایک غار سے بی لومڑی کی چھپائی ہوئی چند چیزیں برآمد ہوئیں جو بی لومڑی نے انتقاماً دوسرے جانوروں سے چُرا کر چھپا رکھی تھیں۔
اسی تحقیقی جوش و جذبے کے نتیجے میں اُنھوں نے ایک جوشاندہ دریافت کیا جس کو پینے سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بعد میں حکیم بندر نے اپنی ادویہ تہس نہس کرنے پر ان کو خوب جھاڑ پلائی۔ دونوں ساتھ ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے بڑی کلاس میں آگئے۔
’’تمھیں پتا ہے بینو! مجھے ایک بڑی زبردست چیز ملی ہے۔‘‘ ایک دن بینو بھالو نے خرگوش کو بتایا۔
’’وہ کیا…؟‘‘ خرگوش نے پوچھا۔
’’بوجھو تو جانیں…‘‘ بھالو نے اِترا کر کہا۔
’’کوئی نشانی تو بتائو کیسی چیز ہے۔‘‘ خرگوش نے پوچھا۔
’’وہ ایک پراسرار چیز ہے بوسیدہ کاغذ پر۔‘‘ بھالو کا لہجہ بڑا پراسرار تھا، بینو خرگوش کی آنکھیں حیرت اور تجسس سے پھیل گئیں۔
’’کیا ہے…؟‘’
’’ایک خزانے کا نقشہ۔‘‘ بینو بھالو نے سرگوشی کی۔
’’اوہ…!‘‘ خرگوش حیران رہ گیا۔
’’تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘ خرگوش کے لہجے میں تجسس تھا۔
’’اس والے غار سے جہاں سے ہم نے پچھلے سال لومڑی آنٹی کی چھپائی ہوئی چیزیں برآمد کی تھیں۔ میں وہاں سے گزر رہا تھا کہ مجھے یہ مٹی میں دبا ہوا نظر آگیا۔‘‘ بھالو نے خرگوش کے کان میں بتایا۔
’’دکھائو کہاں ہے؟‘‘ خرگوش نے بھی کان میں پوچھا۔
’’بے وقوف وہ میں نے چھپا کر رکھا ہوا ہے، اپنے بستے میں، ایسے میں نہیں دکھا سکتا چلو اپنی خفیہ جگہ پر۔‘‘
’’چلو چلو۔‘‘ جلدی جلدی وہ پیڑوں کے جھنڈ میں پہنچ گئے جو نسبتاً تاریک اور عام گزر گاہ سے ہٹ کر تھا۔
’’اوہ…‘‘ خزانے کا نقشہ دیکھ کر خرگوش کے ہونٹ گول ہی رہ گئے۔
’’کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا لکھا ہوا ہے کیا بنا ہوا ہے؟‘‘ خرگوش نے بغور مطالعے کے بعد کہا۔
’’بے وقوف کوڈ ورڈز میں لکھا ہوگا۔ یہ نقشے کی نشانیاں تو مجھے اپنے جنگل کی لگ رہی ہیں یہ ٹوٹے تنے والا درخت ہے، یہ دیکھو تنا ٹوٹ کر اتنا جھک گیا ہے اس تصویر میں۔‘‘
’’ہاں ہاں یہ تو ہے ہمارے جنگل کا درخت۔‘‘ خرگوش پر جوش طاری ہوگیا۔
’’اور یہ دیکھو اس طرف یہ یقینا کسی جھیل کا نشان ہے۔‘‘ بھالو نے دکھایا۔
’’اور یہ ایک چوکور چٹان ہے جو جھیل سے آگے جا کر آتی ہے۔‘‘ بھالو نے کہا تو خرگوش نے تصدیق میں سر ہلایا۔
’’میرے خیال میں تو یہ خزانہ جنگل کے اس شمالی حصے میں ہے جہاں سے اژدھوں کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔‘‘ بھالو نے خیال ظاہر کیا۔
’’اوہ پھر تو یہ بڑا خطرناک خزانہ ہوا۔‘‘ خرگوش نے کپکپی لی۔
’’ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کوئی کم خطرناک ہیں کیا؟‘‘ دیکھ لیں گے اژدھوں کو بھی، بس اب خزانے کی تلاش کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔‘‘ بھالو نے کہا۔
’’مگر بینو ہمارے اسکول کا کیا ہوگا؟‘‘ خرگوش نے پوچھا۔
’’ارے اسکول کی تو چھٹیاں ہونے والی ہیں۔ چھٹیوں تک ہم اپنی تیاری مکمل کرلیتے ہیں لیکن دیکھو کسی کو پتا نہ چلے۔‘‘ بھالو نے کہا۔
وہ دونوں بے چینی سے چھٹیوں کا انتظار کرنے لگے۔ انھوں نے مہم جوئی کے لیے جوگرز، بیگز، کھانے کی سوکھی اشیا، پانی کی بوتلیں رَسّی کے گُچھے اور بیلچے وغیرہ جمع کرلیے تھے جو ممکنہ طور پر خزانے کی تلاش کے دوران کام آسکتے تھے۔ اللہ اللہ کرکے چھٹیاں شروع ہوئیں۔ اُنھوں نے اپنے والدین سے جنگل میں دور دراز سیر کرنے اور وہیں کیمپنگ کرنے کی اجازت مانگی جو اس شرط پر بڑی مشکل سے ملی کہ وہ صبح شام فون کے ذریعے رابطے میں رہیں گے اور زیادہ دور نہیں جائیں گے۔
وہ گرمیوں کی ایک حسین صبح تھی جب بینو بھالو اور بینو خرگوش نے اپنے والدین کو اللہ حافظ کہا اور اپنی مہم کا آغاز کیا۔ کچھ دیر میں وہ جنگل کے آباد اور مانوس علاقوں سے گزر کر سنسان علاقے میں پہنچ گئے۔ یہاں ایک محفوظ مقام پر اُنھوں نے نقشے کا مطالعہ کیا اور اپنے اندازے کے مطابق ایک سمت کو چل دیے۔ کچھ دور چلنے کے بعد نقشے کی پہلی نشانی ٹوٹے تنے والا درخت نظر آنے لگا۔ اس کے بعد ان کو جھیل تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا اور کٹھن سفر طے کرنا پڑا۔ چلتے چلتے بھوک اور پیاس ستانے لگی تو وہ جھیل کنارے سستانے بیٹھ گئے۔ بھالو نے شامی کباب کے سینڈوچ اور شہد کے بسکٹ نکالے، خرگوش نے پلائو اور گاجر کا حلوہ نکالا۔ ان کی ماما نے پہلے اسٹاپ کے لیے ان کو تازہ کھانا بنا کر دیا تھا۔ پیٹ بھر کر کھانے سے ان کو نیند آنے لگی۔ وہ باری باری نیند پوری کرنے لگے کیوں کہ والدین کی ہدایت کے مطابق رات اُنھیں جاگ کر گزارنی تھی۔ اُنھوں نے ایک مناسب درخت پر ٹھکانہ ڈھونڈا پھر گھر فون کرکے اپنی خیریت دی اور رات سکون سے گزر گئی۔
اگلی صبح طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں جھیل ایک پانی سے بھرے پیالے کا منظر پیش کررہی تھی۔ اتنی خوبصورت صبح اُنھوں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اُنھوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ کچھ کھایا پیا اور دوبارہ مہم پر روانہ ہوگئے۔ اگلی نشانی ایک چوکور چٹان تھی جسے تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ جھیل سے آگے ایک چھوٹی پہاڑی اور چند ٹیلے تھے۔ ان میں ان کو چوکور چٹان ڈھونڈنی تھی۔ دن چڑھے وہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے۔ کافی تگ و دو کے بعد آخر کار ان کو چوکور چٹان مل گئی، نقشے کے مطابق اس چٹان سے بیس قدم دور جا کر ایک چھوٹی نوکیلی چٹان زمین کے طرف جھکی ہوئی تھی۔ یہیں پر خزانہ دفن تھا۔ اُنھوں نے اللہ کا نام لے کر بیلچوں سے کھدائی شروع کی۔ کھودتے کھودتے شام ہوگئی۔
’’لگتا ہے بینو کسی نے مذاق کیا ہے۔ یہاں مٹی کے علاوہ کچھ دفن نہیں ہے۔‘‘ بینو بھالو نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نہیں ہمت مت ہارو۔ پتا نہیں خزانہ کتنی گہرائی میں دفن ہے۔‘‘ بینو خرگوش نے ہمت بندھائی۔
’’چلو پھر سے شروع کرو۔‘‘ خرگوش نے بیلچہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ چند ساعتیں اور گزری ہوں گی کہ ان کا بیلچہ کسی ٹھوس چیز سے ٹکرایا، خرگوش اور بھالو پر جوش طاری ہوگیا۔ وہ جلدی جلدی بیلچے چلانے لگے۔ آخر کار لکڑی کا ایک صندوق نمودار ہونے لگا جو نہ جانے کب سے یہاں دفن تھا۔ اتنی گہرائی سے اس کو کھینچ کر اوپر لانا بہت دشوار ثابت ہوا۔ اُنھوں نے رسیوں کی مدد سے صندوق کو کھینچا۔ بالآخر وہ صندوق اوپر آگیا۔
’’اتنا بڑا تالا…؟ یہ کیسے کھلے گا؟‘‘ خرگوش نے پوچھا۔
’’فکر نہ کرو ابھی کھل جاتا ہے۔‘‘ بھالو نے سانسیں درست کیں۔
وہ دونوں تالا کھولنے پر جُت گئے۔ آخر بیلچے مار مار کر تالا توڑنا پڑا۔ آخر وہ لمحہ آگیا جب خزانے کے صندوق کا ڈھکنا کھلنا تھا۔ اُنھوں نے اللہ کا نام لے کر صندوق کا ڈھکنا اُٹھایا۔ اندر کچھ کاغذ اور کپڑے بطور پیکنگ لگے ہوئے تھے اور ایک خط رکھا تھا۔ اُنھوں نے بسم اللہ پڑھ کر وہ خط کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔
’’میرے عزیز… السلام علیکم…!
جب آپ یہ خط پڑھ رہے ہوں گے تو یقینا کافی محنت کے بعد آپ خزانہ حاصل کرچکے ہوں گے، میں اس جنگل میں سلطنت شیریہ کا آخری نام لیوا ہوں۔ گیدڑوں کی غداری کی وجہ سے دشمن ہم پر قابض ہوچکا ہے۔ میں اپنا شاہی خزانہ اور کتب خانے کی چند اہم کتابیں اس صندوق میں بھر کر یہاں دفن کررہا ہوں۔ کوشش کروں گا کہ اس جگہ کی نشانی کسی کاغذ پر لکھ کر کہیں محفوظ جگہ پر چھوڑ جائوں۔ ہاے افسوس…! ہم شیر ہو کر گیدڑوں سے ہار گئے۔ ہماری طاقت، ہمت اور شجاعت میں کلام نہیں لیکن دشمن نے مکاری سے ہماری قوم کو کھیل کود اور عیش و عشرت میں مبتلا کرکے بالکل ناکارہ کردیا۔ ہمارا دشمن ہر دَم چوکنا ہے اور ہم دشمن کی سازش میں پھنس کر عیش کوشی میں مدہوش ہوگئے۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ دعا ہے کہ یہ خزانہ کسی نیک جانور کو ملے۔
اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو
فقط
شہنشاہ شیر الدولہ
چشم و چراغ خاندانِ شیریہ‘‘
خط پڑھ کر بھالو اور خرگوش چپ کے چپ رہ گئے۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ تاریخ کی کلاس میں سر کچھوے نے بتایا تھا کہ صدیوں پہلے اس جنگل میں خاندانِ شیریہ کی شان دار سلطنت تھی جو آپس کی لڑائی اور عیش کوشی کی عادت کے باعث ختم ہوگئی اور دشمنوں نے اس سرزمین پر قبضہ کرلیا۔ ایک صدی غلامی میں گزارنے کے بعد کتنی قربانیوں سے اس جنگل کے باسیوں نے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ سر کچھوے نے اس بے مثال خزانے کا ذکر بھی کیا تھا جسے دشمن کئی نسلوں تک ڈھونڈتا رہا۔ اس خزانے کا ایک ایک ہیرا اپنی خوب صورت اور قدر و قیمت میں دنیا میں نظیر نہیں رکھتا۔
بھالو نے آہستہ سے کپڑا ہٹایا۔ سونے، چاندی، ہیرے جواہرات کے ڈھیر سے ایک روشنی سی بلند ہوئی اور شام کا ملگجا ماحول جگمگا اُٹھا۔ بھالو اور خرگوش کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔ خرگوش نے بے دلی سے کپڑا دوبارہ ڈھک دیا۔
’’پتا نہیں کیوں بینو…! دل اُداس ہوگیا ہے خزانہ پا کر۔‘‘ خرگوش نے کہا۔
’’ہاں… اللہ میاں کو ہی معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ میرا دل بھی اُداس ہے۔‘‘ بھالو نے کہا۔
’’چلو اب کیا کرنا ہے۔‘‘ خرگوش نے پوچھا۔
’’میری تو سمجھ میں نہیں آرہا تم بتائو؟‘‘
’’گھر فون کرکے بابا ماما کو بتاتے ہیں۔ سر کچھوے اور سر شاہین سے بات کرتے ہیں۔ سر بگلے سے کہتے ہیں وہ وین لے کر آجائیں تاکہ خزانہ لے جایا جاسکے۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔ ویسے اس صندوق میں شاہی کتب خانے کی کتابیں بھی ہیں، دیکھنا میں دو دن میں ساری کتابیں پڑھ لوں گا۔‘‘ بھالو نے کہا۔
’’رہنے دو… ا، ب، پ کا قاعدہ تو پڑھا نہیں جاتا، شاہی کتابیں پڑھیں گے آپ؟‘‘ خرگوش نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ارے ہم شاہ زادے لوگ ہیں۔ شاہی کتب ہی ہمیں زیب دیتی ہیں۔ یہ ا، ب، پ پڑھنا ہمیں گوار نہیں۔‘‘ بھالو بھی ہنس پڑا۔
’’اصل میں انکل شیر الدولہ کا بے بسی والا خط پڑھ کر اُداسی کی کیفیت طاری ہورہی تھی، چلو شکر اب تو ہم آزاد ہیں اور ایک شاندار خزانے کے مالک بھی۔‘‘ خرگوش نے کہا۔
’’ان ہیروں کا تاج بنا کر سر پر نہ سجالینا، کہیں ہیروں تلے دب کر عقل رخصت ہوجائے۔‘‘ بھالو نے کہا۔
’’نہیں اس کو صرف دو کاموں کے لیے استعمال کریں گے۔ علم کی تحصیل کے لیے اور دشمن سے لڑنے کی تیاری کے لیے۔‘‘
’’چلو چلو اندھیرا ہونے لگے گا جلدی کرو۔‘‘
بینو بھالو اور بینو خرگوش اپنے والدین کو فون کرنے لگے۔ دور اُفق پر پہاڑیوں کے پیچھے سورج ڈوب رہا تھا۔ شام کے پھیلتے سائے میں دورِ گزشتہ کی جاہ و حشمت لیے وہ شاہی صندوق مٹی کے ڈھیر پہ اُداس اور تنہا پڑا تھا۔

ۣ٭…٭