تتلیاں

ادیب سہارنپوری

میں اسکول جانے کی تیاری کر رہا تھا، امی نے میرے لیے اپنے ہاتھ سے ٹماٹر کا عرق تیار کر کے روز کی طرح میری چھوٹی سی میز پر رکھ دیا ۔ میں اس وقت اپنی کتابیں بستے میں جما رہا تھا۔ مجھے امی کے کمرے میںآنے اور ٹماٹر کا عرق رکھ کر جانے کی قطعی خبر نہ ہوئی۔ امی نے گھر کے تمام لوگوں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ میرے پڑھنے کے کمرے میں نہایت آہستگی سے چلیں تاکہ کسی قسم کا شور نہ ہو۔ میری عادت ہے کہ اسکول جانے سے قبل اپنی تمام کتابوں اور چیزوں کو سلیقے سے جما دوں، جو پڑھنے لکھنے کی وجہ سے بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔
میں نے اپنی چھوٹی بہن سے کئی بار سنا کہ میرے اسکول جانے کے بعد امی نے بہت سے لوگوں کو میرا کمرہ دکھایا اور انھوں نے میرے سلیقے اور صفائی کی بڑی تعریف کی ، حالاں کہ امی نے مجھ سے کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا البتہ میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ مرے اسکول سے آنے کے بعد اکثر دنوں میں امی کی آنکھوں میں، میں نے ایک سمجھ نہ آنے والی محبت کی چمک دیکھی۔ میں جب اسکول سے آکر امی کو سلام کرتا تو امی دعا دے کر اتنی خوش ہوتی ہیں کہ بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن زبان سے کبھی میری تعریف نہیں کرتیں مگر مجھے میری چھوٹی بہن سے سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے اور میں بھی بہت خوش ہوتا ہوں۔ کئی بار میرا جی چاہتا ہے کہ میں امی سے کہوں کہ امی آپ وہی باتیں مجھ سے کہا کیجیے جو آپ میرے بعد دوسرے عزیزوں اور ابو جی سے کہتی ہیں۔ مگر نہ معلوم امی کے سامنے مجھے یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی۔
ہاں تو میں اسکول جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے اپنے بستے کو انسپکٹر پولیس کی بیلٹ کی طرح پہنا۔ میں جب بستہ گلے میں ڈالتا ہوں تو مجھے بیلٹ میں لگے ہوئے کارتوسوں کی قطار یاد آ جاتی ہے۔ میں نے ابو جی سے کئی بار اس خواہش کا ذکر کیا ہے اور ابو نے وعدہ کر رکھا ہے کہ میں ذرا اور بڑا ہو جاؤں تو مجھے ایک پستول کارتوسوں والا خرید کر دے دیںگے۔ میں بستہ پہن کر آئینے کے سامنے آیا جو میرے پڑھنے کی میز کے بالکل سامنے والی دیوار پر لگا ہوا ہے۔ آئینے کے سامنے آ کر میں نے سب سے پہلے کنگھے سے سر کے بالوں کو دوبارہ درست کیا۔ قمیص کا کالر ٹھیک کیا، بستے اور بیلٹ کو دیکھا کہ صحیح جگہ پر ہے یا نہیں۔ میں یہ کر رہی رہا تھا کہ آئینے میں میز کے کونے پر رکھا ہوا ٹماٹر کے عرق کا گلاس نظر پڑا، میں جلدی سے مڑا اور کرسی پر بیٹھ کر اطمینان سے عرق پینے لگا۔ نیکر کی جیب سے رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اپنے کمرے سے نکل کر امی کے کمرے میں آیا تاکہ اجازت لے کر اسکول جاؤں۔ امی اپنے کمرے میں نہیں تھیں ، وہاں سے میں باورچی خانے کی طرف چلا ، وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کیوں کہ اکثر جب امی اپنے کمرے میں نہیں ملتیں تو باورچی خانے میں باورچی کو ہدایتیں دیتی ہوئی ضرور مل گئیں لیکن آج نہ باورچی خانے میں تھیں نہ اپنے کمرے میں۔ میں باورچی خانے میں کھڑا جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ شاید امی باغ میں ہوں۔ چناں چہ میں باغ میں پہنچا۔ صبح کا وقت تھا خوب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، پھول کھلے ہوئے تھے، میرے داہنے ہاتھ کی طرف گلاب کے پھولوں کے پودے دور تک لگے ہوئے تھے۔ گلاب کی شاخوں میں لگے ہوئے پھول یوں معلوم ہوتے تھے جیسے ننھے منے بہت سے خوب صورت بچے قطار میں کھڑے ہوں۔ اتنے میں بہت سی تتلیاں پھولوں پر منڈلانے لگیں۔ وہ ایک دم کے لیے پھولوں پر بیٹھتیں اور پھر سے اڑ جاتیں، کئی تتلیاں پھولوں کے گرد حلقہ سا بنا کر دوڑ رہی تھیں۔ جیسے سرکس میں چھتری والا جھولا گھومتا ہے اور ایک جھولا دوسرے جھولے کا پیچھا کرتا ہے لیکن پکڑ نہیں پاتا۔
میں دیر تک یہ تماشا دیکھتا رہا اور مجھے بالکل بھی یاد نہیں رہا کہ میں امی کو ڈھونڈنے آیا تھا اورمجھے اسکول جانا ہے۔ اچانک میرا جی چاہا کہ ایک تتلی پکڑنا چاہیے۔ میں فوراً ہی گھٹنوں کے بل جھک کر پھولوں کی شاخ کے برابر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس شاخ کی طرف بڑھا جس پر دو تتلیاں بیٹھی تھیں۔ جیسے ہی میری چٹکی تتلی کے پروں کے پاس پہنچی وہ پھر سے اڑ کر دوسرے پھول پر منڈلانے لگی۔ جس تتلی کو میں پکڑنا چاہتا تھا وہ تمام تتلیوں میں بڑی بھی تھی اور خوب صورت بھی ،اس لیے میں پھر اس طرح جھکے جھکے سانس روکے ہوئے اس کی طرف بڑھا مگر وہ بہت ہوشیار معلوم ہوتی تھی۔ جب میں نزدیک پہنچتا وہ اڑ جاتی اور میرے ہاتھ کی گدگدی ویسی کی ویسی ہی رہ جاتی اور مارے شرم کے میراہ چہرہ سرخ ہو جاتا۔ میں ہر مرتبہ اس احتیاط سے بڑھتا کہ میرا چلنا مجھ کو بھی معلوم نہ ہوتا مگر تتلی پھر بھی ہاتھ نہ آئی۔ اب مجھے غصہ آنے لگا تھا۔ چناں چہ میں کھڑا ہو گیا، گھٹنوں سے مٹی جھاڑی اور سوچنے لگا لیکن کوئی ترکیب سمجھ میں نہ آئی۔ ایک دم مجھے امی کی ہدایت یاد آئی کہ غصہ حرام ہوتا ہے اور غصے میں دماغ اس قابل نہیں رہتا کہ کوئی صحیح بات سوچ سکے لہٰذا میں نے جب اطمینان سے اپنی حالت اور غصے پر غور کیا تو مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے سوچا کہ اس میں تتلی کی کیا خطا ہے، ہر جاندار چیز کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے اور ہر جاندار چیز اپنی آزادی کی حفاظت کرتی ہے۔ پھر اگر تتلی اس خوف سے کہ پکڑے جانے کے بعد کیا سلوک کیا جائے ،میرے ہاتھ نہیں آتی تو وہ حق بہ جانب ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ میں اسے پکڑنے کے لیے اتنا بے قرار کیوں ہوں؟ میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہی تتلی پھر ایک پھول پر آ کر بیٹھی اور فوراً ہی ایک نئی ترکیب میرے ذہن میں آئی، میں نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اپنے آس پاس چھوٹے کنکر تلاش کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے تین کنکر ملے۔ چوتھا نہیں ملتا تھا۔ میں تتلی کی طرف بھی دیکھتا جاتا تھاکہ وہ اڑ نہ جائے اور کنکر بھی تلاش کرتا جاتا تھا مگر کنکر نہ ملنا تھا نہ ملا۔ میں نے پھر دماغ پر زور ڈالا اور فوراً ہی مجھے اپنا کمپاس بکس یاد آ گیا۔ میں نے بستے میں سے کمپاس بکس نکالا اور اسے جلدی سے کھول کر ربر ڈھونڈنے لگا لیکن ربر بھی غائب تھا۔ میں بڑا پریشان کہ آخر ربر کہاں گیا؟ حالاں کہ مجھے خوب اچھی طرح یاد تھا کہ میں نے جومیٹری کا سبق پورا کر کے ربر کو کمپاس بکس میں ہی رکھا تھا اور ربر کا رکھنا مجھے یوں بھی یاد تھا کہ ربر رکھتے ہوئے مجھے پیپر منٹ ڈراپ کا خیال آیا تھا اور میں نے سوچا تھا کہ امی سے پیپر منٹ ڈراپ مانگوں گا۔ میں بکس کو بند کر کے بستے میں رکھنا ہی چاہتا تھا کہ مجھے میرا ربر زمین پر پڑا ہوا نظر آ گیا۔ اب میں اور بھی حیران کہ ربر زمین پر کیوں کر گرا؟ شاید میں نے گھبراہٹ میں کمپاس بکس کھولا تھا اور گھبراہٹ میں کام اکثر بگڑ ہی جاتا ہے۔خیر صاحب، میں نے جلدی سے ربر اٹھا کر رومال کے چوتھے کونے میںباندھا اور اپنی مہم پر روانہ ہوا۔ رومال کے دو کونوں کو اس پھول پر جس پر تتلی بیٹھی تھی اس طرح پھینکوں جیسے کسی کے گلے میں ہار ڈال دیتے ہیں۔ کنکریاں رومال میں وزن پیدا کرنے کے لیے باندھی گئی تھیں تاکہ توازن بھی رہے اور پھینکنے میں آسانی ہو، اور تتلی اس میں پھنس جائے۔ جوں ہی میں نے رومال پھول پر پھینکا، کوئی نرم نرم چیز مجھ سے لپٹ گئی۔ میں نے چیخ مارنا چاہی مگر آواز نہ نکلی جیسے کسی نے میرا گلا دبا دیا ہو۔ مجھے اپنی پیٹھ پر کسی کا رینگتا ہوا ہاتھ بھی محسوس ہوا، جیسے امی مجھے سلاتے وقت میری پیٹھ سہلاتی ہیں۔ تھوڑی دیر میں جب ذرا میرے حواس درست ہوئے تو میں نے اپنے ہاتھوں سے اس لپٹی ہوئی چیز کو ٹٹولنا شروع کیا۔ مجھے اپنی ہی طرح اس کا جسم اور ہاتھ پیر محسوس ہوئے لیکن بار بار ایسی ہوا لگتی ہوئی محسوس ہوتی تھی کہ جیسے کوئی پنکھا جھل رہا ہو۔ اس وقت تک میں نے خوف کے مارے آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔اب میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو ایک خوب صورت عورت کے سینے سے چمٹا ہوا پایا اور یوں معلوم ہوا کہ جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ میں نے خوف کی وجہ سے پھر آنکھیں بند کرلیں اور زمین پر پیر ٹکانے کی کوشش کی۔ لیکن پیر بالکل لٹکتے ہوئے معلوم ہوئے۔ میری کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ معاملہ کیا ہے؟ اتنے میں مجھے پر زمین پر لگتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں نے پھر آنکھیں کھول دیں ، دیکھا تو سامنے ایک بہت ہی خوب صورت عورت کھڑی تھی۔ اس نے بغیر کوئی سوال کیے مجھے سے ہنس کر کہا :’’ میں پھولوں کی شہزادی ہوں اور یہ میرا محل ہے، جس میں تم اس وقت کھڑے ہوئے ہو، میں تم کو باغ سے اڑا کر اپنے محل میں لائی ہوں۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نے تالی بجائی۔ تالی بجاتے ہی محل کے اندر سینکڑوں تتلیاں جمع ہوگئیں اور اڑ اڑ کر میرے ہاتھوں، گردن اور سر پر بیٹھنے لگیں اور ارد گرد تتلیاں نظر آنے لگیں، یہاں تک کہ جب میں آنکھیں کھولتا تو کوئی میری پلکوں سے ٹکرا جا جتیں، ان کے پروں کی ہلکی ہلکی ہوا سے جیسے نیند یں برس رہی تھیں اور میں بے ہوش سا ہوا جاتا تھا۔ اتنے میں پھولوں کی شہزادی نے پھر تالی بجائی اور تتلیاں غائب ہو گئیں۔ تتلیاں گئیں تو مجھے شہزادی کی چاند سی صورت نظر آئی۔ اس نے بڑے پیارے اور نرم لہجے میں مجھ سے پوچھا:’’ کیا تم کو میرا محل پسند آیا؟‘‘
میں نے سر کے اشارے سے ہاں کہا اور مجھے فوراً امی یاد آ گئیں۔ میں نے شہزادی سے پوچھا:’’ میری امی کہاں ہیں؟ میں یہ محل ان کو بھی دکھانا چاہتا ہوں۔ تم یہیں ٹھہرنا میں امی کو بلا کر ابھی لاتا ہوں۔‘‘
شہزادی نے مجھے روک کر اور ہنس کر کہا:’’ میرے محل میں صرف بچے ہی آ سکتے ہیں، تمھاری امی جب تمھارے برابر کی تھیں تو وہ بھی اس محل میں آتی رہتی تھیں مگر اب وہ بڑی ہو گئی ہیں۔ اس لیے اب وہ یہاں نہیں آ سکیں گی۔‘‘
میں نے پوچھا:’’ کیوں؟‘‘
کہنے لگیں:’’ بہت کم بچے اس قابل ہوتے ہیں کہ میرے محل میں داخل ہو سکیں۔‘‘
میں نے محل کو دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا:’’ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘
پھولوں کی شہزادی نے جواب دیا :’’ آپ دیکھتے ہیں میرا محل کتنا صاف شفاف اور خوب صورت ہے۔ اس لیے اس محل میں وہی بچے آ سکتے ہیں جو آپ کی طرح صاف ستھرے ہوں، جو بچے گندے یا میلے رہتے ہیں، میں ان کو اپنے محل میں نہیں لاتی۔‘‘
اپنی تعریف سن کر مجھے ایک دم امی کی یاد آ گئی اور میں نے بڑے زور سے امی کو پکارا۔ امی، امی اور میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ امی میرے پلنگ پر بیٹھی ہیں اور سر پر ہاتھ پھیر پھیر کر پوچھ رہی ہیں:’’ کیا ہوا بیٹے، کوئی خواب دیکھ رہے تھے؟ اٹھ جاؤ، چائے تیار ہے!‘‘

٭٭٭